نہ ان کا طرز نہ میرا شعار ختم ہوا
نہ آئے وہ نہ مرا انتظار ختم ہوا
ہے تشنگی کو ابھی جوئے بار کی امید
اگرچہ سلسلۂ کوہسار ختم ہوا
اب آشکار ہوئی ہے حقیقت دنیا
خود اپنے آپ پہ جب اختیار ختم ہوا
نہ تھا بھروسہ تو رکھتے ہی کیسے امیدیں
سلوک وقت سے ہر اعتبار ختم ہوا
ہر ایک شکل نظر آ رہی ہے آئینہ
طلسم عشق کا گرد و غبار ختم ہوا
غزل
نہ ان کا طرز نہ میرا شعار ختم ہوا
محور نوری