نہ تو ہم بحر سے واقف نہ سخن جانتے ہیں
کیسے دیں لفظوں کو ترتیب یہ فن جانتے ہیں
وہ کسی طور بھی تجھ کو نہ لگائیں گے گلے
اے خوشی جو بھی ترا چال چلن جانتے ہیں
دل کے مندر میں ہیں دو ایک پجاری ایسے
جو نہ پوجا نہ عبادت نہ بھجن جانتے ہیں
اس لئے تھام کے رکھا ہے جنوں کا دامن
اے خرد ہم ترا دیوالیہ پن جانتے ہیں
جو محبت کے ہیں الفاظ مرے ہونٹوں پر
وہ تعصب کا ترے چیر ہرن جانتے ہیں
پاؤں پھیلاتے ہیں اتنا کہ ہے جتنی چادر
اپنی اوقات ہے کیا خوب اپن جانتے ہیں
غزل
نہ تو ہم بحر سے واقف نہ سخن جانتے ہیں
فیض خلیل آبادی