نہ تو بیکرانی دل رہی نہ تو مد و جزر طلب رہا
ترے بعد بحر خیال میں نہ خروش اٹھا نہ غضب رہا
مرے سامنے سے گزر گیا وہ غزال دشت مراد کا
میں کھڑا رہا یوں ہی بے صدا مجھے پاس حد ادب رہا
اسے جاں گزاروں سے کیا شغف اسے خاکساروں سے کیا شرف
وہ فضیلتوں کے دیار میں بہ حضور پائے نسب رہا
وہی بیعت غم ہجر تھی وہی کشف حجرۂ وصل تھا
میں مرید حلقۂ خواب تھا سو قرین مرشد لب رہا
تری مملکت کے نصاب پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا
وہی روشنی کا سفیر ہے جو اسیر ظلمت شب رہا
غزل
نہ تو بیکرانی دل رہی نہ تو مد و جزر طلب رہا
امیر حمزہ ثاقب