EN हिंदी
نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے | شیح شیری
na tan mein ustuKHwan ne rag rahi hai

غزل

نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

;

نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے
لبوں پر کیونکہ جان اب لگ رہی ہے

ہمیں پوچھو تو ہستی سے عدم تک
مسافت کیا ہے ہاں یک ڈگ رہی ہے

تمہاری یاد میں اے شعلہ خوباں
زبان شمع پر لو لگ رہی ہے

ہمیں یک عمر سے کوچے میں اس کے
تلاش پائے بوس سگ رہی ہے

نہ جا اس کی طرف تو آج حاتمؔ
وہاں شمشیر ابرو بگ رہی ہے