EN हिंदी
نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا | شیح شیری
na tare afshan na kahkashan hai namuna hansti hui jabin ka

غزل

نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا

ریاضؔ خیرآبادی

;

نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا
کھلا ہے پرچم گڑا ہے جھنڈا فلک پر اس آہ آتشیں کا

رہے ہیں گھل مل کے کیسے دونوں یہ ایک ہیں دل کے کیسے دونوں
چھٹا جو ہم سے کسی کا دامن تو ساتھ ہے اشک و آستیں کا

جو ایک ہو تو ہم اس کو روئیں ہوئے ہیں دشمن بدن کے روئیں
ہمیں تو ہر تار آستیں پر گمان ہے مار آستیں کا

جو رنگ ان کا بدل چلا ہے تو شوق اب ہے نہ ولولہ ہے
بہت ہی نازک معاملہ ہے وصال معشوق نازنیں کا

چڑھی ہے کچے گھڑے کی ایسی بندھی ہے یہ دھن ہمیں بھی ساقی
چکھائیں واعظ کو آج ہم بھی ذرا مزا شہد و انگبیں کا

تمہارے انکار نے چبھوئے ہمارے دل میں ہزاروں نشتر
تم ایسے نازک کہ نقش بن کر رہا لبوں پر نشاں نہیں کا

جو چھینٹیں اڑ کر پڑیں خدایا وہ اور محشر کریں گی برپا
ہے میری گردن پر اور الٹا یہ خون قاتل کی آستیں کا

کلی نہ دامن کی مسکرائے نہ آستیں تیری گل کھلائے
میں صدقے قاتل نہ رنگ لائے یہ خون دامن کا آستیں کا

ریاضؔ معشوق ماہ پیکر کوئی نہ کوئی ہے جلوہ گستر
کہ شام آئی ہے جو مرے گھر وہ چاند لائی ہے چودھویں کا