EN हिंदी
نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی | شیح شیری
na surKHi ghuncha-e-gul mein tere dahan ki si

غزل

نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی

نظیر اکبرآبادی

;

نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی
نہ یاسمن میں صفائی ترے بدن کی سی

میں کیوں نہ پھولوں کہ اس گلبدن کے آنے سے
بہار آج مرے گھر میں ہے چمن کی سی

یہ برق ابر میں دیکھے سے یاد آتی ہے
جھلک کسی کے دوپٹے میں نورتن کی سی

گلوں کے رنگ کو کیا دیکھتے ہو اے خوباں
یہ رنگتیں ہیں تمہارے ہی پیرہن کی سی

جو دل تھا وصل میں آباد تیرے ہجر میں آہ
بنی ہے شکل اب اس کی اجاڑ بن کی سی

تو اپنے تن کو نہ دے نسترن سے اب تشبیہ
بھلا تو دیکھ یہ نرمی ہے تیرے تن کی سی

ترا جو پاؤں کا تلوا ہے بزم مخمل سا
صفائی اس میں ہے کہیے تو نسترن کی سی

نظیرؔ ایک غزل اس زمیں میں اور بھی لکھ
کہ اب تو کم ہے روانی ترے سخن کی سی