نہ صبح وسعت نہ شام وسعت
یہ کس نے کر دی حرام وسعت
مرے بدن میں سمٹ گئی ہے
مرے پروں کی تمام وسعت
ہوس کے شعلے بھڑک رہے ہیں
جھلس رہی ہے مدام وسعت
گھٹن سی ہوتی ہے اس سے مل کر
اور اس نے رکھا ہے نام وسعت
تری ہی خاطر لہو کا سودا
تو پھر تجھے تو سلام وسعت
میں جب سے امجدؔ سمٹ گیا ہوں
وہ لے کے بیٹھے ہیں خام وسعت

غزل
نہ صبح وسعت نہ شام وسعت
غفران امجد