نہ سوچیں اہل خرد مجھ کو آزمانے کو
میں جانتا ہوں بہت عقل کے فسانے کو
نہیں قفس سے نکلنے کی آرزو صیاد
دکھا دے ایک نظر میرے آشیانے کو
اسیر کر کے قفس میں مجھے یہ حیرت ہے
وہ کہہ رہے ہیں مجھی سے چمن بچانے کو
سلوک اہل چمن سے یہ باغباں نے کیا
قفس سمجھنے لگے ہیں سب آشیانے کو
بتاؤ تم کو یہ کیا ہو گیا ہے اہل چمن
جلا رہے ہو جو خود اپنے آشیانے کو
جفا و ظلم کے اس تند تیز طوفاں میں
وہ مجھ سے کہتے ہیں شمع وفا جلانے کو
گرا رہے ہیں مسلسل وہ بجلیاں دانشؔ
بتاؤ کیسے بچاؤ گے آشیانے کو
غزل
نہ سوچیں اہل خرد مجھ کو آزمانے کو
دانش فراہی