نہ شکوہ لب تک آئے گا نہ نالہ دل سے نکلے گا
مرے ضبط محبت کا بھرم مشکل سے نکلے گا
نہ حسرت دل سے نکلے گی نہ ارماں دل سے نکلے گا
جو اس پھندے میں پھنس جائے گا وہ مشکل سے نکلے گا
خدا رکھے یہ پاس وضع میں تم سے بھی بڑھ کر ہے
تمہیں آ کر نکالو گے تو ارماں دل سے نکلے گا
بہت روئے گی دنیا اس بشر کی بد نصیبی پر
جو داغ آرزو لے کر تری محفل سے نکلے گا
نہ کھینچ اے مہرباں سینے سے میرے تیر رہنے دے
نکل جائے گا دم میرا جو پیکاں دل سے نکلے گا
یہ موجوں کے نہیں اے نا خدا تقدیر کے بل ہیں
سفینہ غرق ہو کر دامن ساحل سے نکلے گا
جو دم نکلے تو میری مشکلیں آسان ہو جائیں
مگر یہ بھی تو مشکل ہے کہ دم مشکل سے نکلے گا
نسیمؔ اچھی غزل پر داد دیں گے اہل دل دل سے
اتر جائے گا دل میں شعر جو بھی دل سے نکلے گا
غزل
نہ شکوہ لب تک آئے گا نہ نالہ دل سے نکلے گا
نسیم نور محلی