نہ سنگ راہ نہ سد قیود کی صورت
میں ڈھ رہا ہوں اب اپنے وجود کی صورت
جگہ پہ اپنی جما ہے وہ سنگ کی مانند
بکھر رہا ہوں میں دیوار دود کی صورت
جبیں پہ خاک تقدس ہوں مجھ کو پہچانو
چمک رہا ہوں میں نقش سجود کی صورت
مری نظر میں تیقن کی دھوپ روشن ہو
کبھی تو پھیلے وہ رنگ شہود کی صورت
گذشتہ صدیوں کا بھی بوجھ مجھ کو ڈھونا تھا
ادا ہوا ہوں میں ہر لمحہ سود کی صورت
لرز رہا ہوں میں اپنی جسارتوں پر شامؔ
وہ سہما سہما کھڑا ہے جمود کی صورت

غزل
نہ سنگ راہ نہ سد قیود کی صورت
شام رضوی