نہ سہی عیش، گزارا ہی سہی
یعنی گر تو نہیں دنیا ہی سہی
چھوڑیئے کچھ تو مرا بھی مجھ میں
خون کا آخری قطرہ ہی سہی
غور تو کیجے مری باتوں پر
عمر میں آپ سے چھوٹا ہی سہی
رنج ہم نے بھی جدا پائے ہیں
آپ یکتا ہیں تو یکتا ہی سہی
میں برا ہوں تو ہوں اب کیا کیجے
کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی سہی
کس کو سینے سے لگاؤں ترے بعد
جاتے جاتے کوئی دھوکہ ہی سہی
کر کچھ ایسا کہ تجھے یاد رکھوں
بھول جانے کا تقاضا ہی سہی
تم پہ کب روک تھی چلتے جاتے
میری سوچوں پہ تو پہرہ ہی سہی
وہ کسی طور نہ ہوگا میرا
چلو ایسا ہے تو ایسا ہی سہی
سرخ کرنے لگی ہر شے جوادؔ
یاد کا رنگ سنہرا ہی سہی
غزل
نہ سہی عیش، گزارا ہی سہی
جواد شیخ