نہ ساتھ دے گا کوئی راہ آشنا میرا
جدا ہے سارے زمانے سے راستہ میرا
گزر کے آئی ہوں میں غم کے ریگزاروں سے
نظر اداس ہے دل ہے دکھا ہوا میرا
نہ جانے کس لیے قاتل کے اشک بھر آئے
فراز دار پہ جب سامنا ہوا میرا
دیار جاں میں فروزاں رہے گی شمع حیات
سمجھ لیا تری آنکھوں نے مدعا میرا
کیا ہے پیش تجھے آنسوؤں کا نذرانہ
ہجوم شام الم اور دل جلا میرا
وہ سانحہ مرے دل پر گزر گیا گلنارؔ
ہر ایک حرف دعا بے صدا ہوا میرا
غزل
نہ ساتھ دے گا کوئی راہ آشنا میرا
گلنار آفرین