نہ رونا رہ گیا باقی نہ ہنسنا رہ گیا باقی
اک اپنے آپ پر آوازے کسنا رہ گیا باقی
ہماری خود فراموشی یہ دنیا جان جائے گی
ذرا سا اور اس دلدل میں دھنسنا رہ گیا باقی
ہوس کے ناگ نے دن رات رکھا اپنے چنگل میں
بہت کھیلا ہمارے تن سے ڈسنا رہ گیا باقی
کسی کے پیار کا قصہ ادھورا چھوڑ آئے ہم
الجھنا خود سے اور ہر دم ترسنا رہ گیا باقی
کسی کو رشک آئے کیوں نہ قسمت پر ہماری اب
اجڑ آئے ہیں ہر جانب سے بسنا رہ گیا باقی
کسی کی آنکھ نے خواب تحیر تان رکھا ہے
نویدؔ اس دام یکتائی میں پھنسنا رہ گیا باقی

غزل
نہ رونا رہ گیا باقی نہ ہنسنا رہ گیا باقی
افضال نوید