EN हिंदी
نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے | شیح شیری
na puchho shab-e-wasl kya ho raha hai

غزل

نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے

شرف مجددی

;

نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے
گلے میں ہیں بانہیں گلا ہو رہا ہے

وہ اٹھلا کے میری طرف آ رہے ہیں
قیامت کا وعدہ وفا ہو رہا ہے

گلے پر جو رک رک کے چلتا ہے خنجر
یہ پورا مرا مدعا ہو رہا ہے

مری بے خودی پر نظر کیا ہو اس کو
وہ خود محو ناز و ادا ہو رہا ہے

وہ ہمراہ لے کر گئے ہیں عدو کو
ذرا ہم بھی دیکھ آئیں کیا ہو رہا ہے

تجاہل نے ان کے ہمیں مار ڈالا
جب آتے ہیں کہتے ہیں کیا ہو رہا ہے

شرفؔ تم نے بدنام اسے کر کے چھوڑا
یہی ذکر اب جا بجا ہو رہا ہے