نہ پوچھو کون ہیں کیوں راہ میں ناچار بیٹھے ہیں
مسافر ہیں سفر کرنے کی ہمت ہار بیٹھے ہیں
ادھر پہلو سے وہ اٹھے ادھر دنیا سے ہم اٹھے
چلو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی بیکار بیٹھے ہیں
کسے فرصت کہ فرض خدمت الفت بجا لائے
نہ تم بیکار بیٹھے ہو نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں
جو اٹھے ہیں تو گرم جستجوئے دوست اٹھے ہیں
جو بیٹھے ہیں تو محو آرزوئے یار بیٹھے ہیں
مقام دستگیری ہے کہ تیرے رہرو الفت
ہزاروں جستجوئیں کر کے ہمت ہار بیٹھے ہیں
نہ پوچھو کون ہیں کیا مدعا ہے کچھ نہیں بابا
گدا ہیں اور زیر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
یہ ہو سکتا نہیں آزادؔ سے مے خانہ خالی ہو
وہ دیکھو کون بیٹھا ہے وہی سرکار بیٹھے ہیں
غزل
نہ پوچھو کون ہیں کیوں راہ میں ناچار بیٹھے ہیں
آزاد انصاری