نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
قرار آنا کہاں کا سانس بھی آتی ہے مشکل سے
بہ ہر صورت سفینہ ڈوب جاتا ہے محبت کا
کبھی ٹکرا کے طوفاں سے کبھی ٹکرا کے ساحل سے
اسے کہتے ہیں محرومی اسے کہتے ہیں ناکامی
سر منزل پہنچ کر بھی ہوں اب تک دور منزل سے
دل بے تاب پاتا ہے سکوں کب جوش الفت میں
یہ دریا موجزن ہو ہو کے ٹکراتا ہے ساحل سے
یہاں تک رفتہ رفتہ بڑھ گیا احساس محرومی
انہیں دیکھا مگر تشنہ نظر اٹھا ہوں محفل سے
غزل
نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
ابرار شاہجہانپوری