EN हिंदी
نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے | شیح شیری
na puchho jaan par kya kuchh guzarti hai gham-e-dil se

غزل

نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے

ابرار شاہجہانپوری

;

نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
قرار آنا کہاں کا سانس بھی آتی ہے مشکل سے

بہ ہر صورت سفینہ ڈوب جاتا ہے محبت کا
کبھی ٹکرا کے طوفاں سے کبھی ٹکرا کے ساحل سے

اسے کہتے ہیں محرومی اسے کہتے ہیں ناکامی
سر منزل پہنچ کر بھی ہوں اب تک دور منزل سے

دل بے تاب پاتا ہے سکوں کب جوش الفت میں
یہ دریا موجزن ہو ہو کے ٹکراتا ہے ساحل سے

یہاں تک رفتہ رفتہ بڑھ گیا احساس محرومی
انہیں دیکھا مگر تشنہ نظر اٹھا ہوں محفل سے