EN हिंदी
نہ پوچھو دوستو میں کس طرح ہنستا ہنساتا ہوں | شیح شیری
na puchho dosto main kis tarah hansta hansata hun

غزل

نہ پوچھو دوستو میں کس طرح ہنستا ہنساتا ہوں

انتظار غازی پوری

;

نہ پوچھو دوستو میں کس طرح ہنستا ہنساتا ہوں
توجہ یاد رکھتا ہوں تغافل بھول جاتا ہوں

مجھے تو یاد ہے میں آج تک بھولا نہیں تجھ کو
بتا بھولے سے تجھ کو بھی کبھی میں یاد آتا ہوں

اگر ماضی بھلا بیٹھے تو اپنا حال کیا ہوگا
کہانی رات بھر اہل چمن کو میں سناتا ہوں

یہ کیا کم ہے کہ میرے دل میں پنہاں دولت غم ہے
میں اکثر اپنی پلکوں کو ستاروں سے سجاتا ہوں

دل وحشت زدہ کا انتظارؔ اب تو یہ عالم ہے
کہ خود اپنا نشیمن اپنے ہاتھوں سے جلاتا ہوں