نہ پوچھو دوستو میں کس طرح ہنستا ہنساتا ہوں
توجہ یاد رکھتا ہوں تغافل بھول جاتا ہوں
مجھے تو یاد ہے میں آج تک بھولا نہیں تجھ کو
بتا بھولے سے تجھ کو بھی کبھی میں یاد آتا ہوں
اگر ماضی بھلا بیٹھے تو اپنا حال کیا ہوگا
کہانی رات بھر اہل چمن کو میں سناتا ہوں
یہ کیا کم ہے کہ میرے دل میں پنہاں دولت غم ہے
میں اکثر اپنی پلکوں کو ستاروں سے سجاتا ہوں
دل وحشت زدہ کا انتظارؔ اب تو یہ عالم ہے
کہ خود اپنا نشیمن اپنے ہاتھوں سے جلاتا ہوں
غزل
نہ پوچھو دوستو میں کس طرح ہنستا ہنساتا ہوں
انتظار غازی پوری