نہ پوچھ ربط ہے کیا اس کی داستاں سے مجھے
بچھڑ گیا کہ بچھڑنا تھا کارواں سے مجھے
مرے بدن میں کوئی بھر دے برف کے ٹکڑے
کہ آنچ آتی ہے راتوں کو کہکشاں سے مجھے
کرایہ دار بدلنا تو اس کا شیوہ تھا
نکال کر وہ بہت خوش ہوا مکاں سے مجھے
صدائیں جسم کی دیوار پار کرتی ہیں
کوئی پکار رہا ہے مگر کہاں سے مجھے
کھڑا کھڑا یوں ہی سر پر کہیں نہ آن گرے
لگا ہی رہتا ہے یہ در بھی آسماں سے مجھے
اب اس کی باری ہے تو اس سے کیسے منہ موڑوں
کبھی تو اس نے بھی چاہا تھا جسم و جاں سے مجھے
مرے ارادوں کو وہ مجھ سے پوچھ کر افسرؔ
دو چار کر گیا اک اور امتحاں سے مجھے
غزل
نہ پوچھ ربط ہے کیا اس کی داستاں سے مجھے
علیم افسر