EN हिंदी
نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے | شیح شیری
na puchh meri kahani kahan se nikli hai

غزل

نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے

شہزاد انجم برہانی

;

نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے
یہ داستاں بھی تری داستاں سے نکلی ہے

جگر کو چیر لیا شوق میں چٹانوں نے
صدائے عشق جب آب رواں سے نکلی ہے

سبھی پہ خوف مسلط تھا ناخداؤں کا
جو بات حق تھی ہماری زباں سے نکلی ہے

چھوا ہے تجھ کو تو میرا سلگ اٹھا ہے بدن
یہ کیسی آنچ ترے جسم و جاں سے نکلی ہے

فلک کے سارے نظارے ہوئے ہیں حلقہ بگوش
برات کس کی در کہکشاں سے نکلی ہے