نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے
یہ داستاں بھی تری داستاں سے نکلی ہے
جگر کو چیر لیا شوق میں چٹانوں نے
صدائے عشق جب آب رواں سے نکلی ہے
سبھی پہ خوف مسلط تھا ناخداؤں کا
جو بات حق تھی ہماری زباں سے نکلی ہے
چھوا ہے تجھ کو تو میرا سلگ اٹھا ہے بدن
یہ کیسی آنچ ترے جسم و جاں سے نکلی ہے
فلک کے سارے نظارے ہوئے ہیں حلقہ بگوش
برات کس کی در کہکشاں سے نکلی ہے
غزل
نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے
شہزاد انجم برہانی