EN हिंदी
نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی | شیح شیری
na nikla munh se kuchh nikli na kuchh bhi qalb-e-muztar ki

غزل

نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی

آغا شاعر قزلباش

;

نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی
کسی کے سامنے میں بن گیا تصویر پتھر کی

خدا سے کیوں نہ مانگوں واہ میں بندوں سے کیا مانگوں
مجھے مل جائے گی جو چیز ہے میرے مقدر کی

تصور چاہئے اے شیخ سب کا ایک ایما ہے
صدا ہے پردۂ ناقوس میں اللہ اکبر کی

دل راحت طلب کو قبر میں کیا بے قراری ہے
مجھے گھبرائے دیتی ہے اداسی اس نئے گھر کی

کلیجے میں ہزاروں داغ، دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی

سنبھل کر دیکھنا آرائشوں کے بعد آئینہ
یہ آئینہ نہیں ہے اب یہ ٹکڑے ہے برابر کی

مرے اشعار شاعرؔ داغ و آصف جاہ سے پوچھو
کہ شاہ و جوہری ہی جانتے ہیں قدر گوہر کی