نہ نوازشوں کی ہے آرزو نہ تری جفا کا ملال ہے
تو نظر سے اپنی گرا نہ دے یہی ایک دل میں خیال ہے
تجھے جان مہر و وفا کہیں تجھے عکس شان خدا کہیں
تجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا یہ مری نظر کا کمال ہے
ہے اسی سے روح میں تازگی یہی قلب و جاں کی ہے روشنی
تو خدا را ترک ستم نہ کر مری زندگی کا سوال ہے
تری راہ میں تری چاہ میں یہ مقام کون سا آ گیا
کہ خوشی کی مجھ کو خوشی نہیں نہ ملال ہی کا ملال ہے
وہ نظر کسی کی جھکی جھکی وہ ہنسی کسی کی رکی رکی
کسے پاس ضبط کا ہوش ہے کسے گفتگو کی مجال ہے
کبھی روتے روتے ہنسا دیا کبھی ہنستے ہنستے رلا دیا
تری یاد ہی سے ہے ہر خوشی ترے ذکر ہی سے ملال ہے
غزل
نہ نوازشوں کی ہے آرزو نہ تری جفا کا ملال ہے
نیرآثمی