نہ ملا ترا پتہ تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
یوں ہی در بدر رہا تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
تجھے زندگی کہا ہے تو ہے زندگی کا حاصل
تجھے بے وفا کہا تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
مرے دل میں ضبط غم کا جو چراغ جل رہا ہے
وہ چراغ بجھ گیا تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
یہ جہاں نہ جانے کیا کیا مجھے کہہ رہا ہے لیکن
کبھی تم نے کچھ کہا تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
میں چلا تو ہوں سنانے اسے داستاں وفا کی
کوئی حادثہ ہوا تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
غزل
نہ ملا ترا پتہ تو مجھے لوگ کیا کہیں گے
بیتاب لکھنوی