EN हिंदी
نہ مل سکا کہیں ڈھونڈے سے بھی نشان مرا | شیح شیری
na mil saka kahin DhunDe se bhi nishan mera

غزل

نہ مل سکا کہیں ڈھونڈے سے بھی نشان مرا

نشتر خانقاہی

;

نہ مل سکا کہیں ڈھونڈے سے بھی نشان مرا
تمام رات بھٹکتا رہا کسان مرا

میں گھر بسا کے سمندر کے بیچ سویا تھا
اٹھا تو آگ کی لپٹوں میں تھا مکان مرا

جنوں نہ کہئے اسے خود اذیتی کہئے
بدن تمام ہوا ہے لہو لہان مرا

ہوائیں گرد کی صورت اڑا رہی ہیں مجھے
نہ اب زمیں ہی مری ہے نہ آسمان مرا

دھمک کہیں ہو لرزتی ہیں کھڑکیاں میری
گھٹا کہیں ہو ٹپکتا ہے سائبان مرا

مصیبتوں کے بھنور میں پکارتے ہیں مجھے
عجیب دوست ہیں لیتے ہیں امتحان مرا

کسے خطوط لکھوں حال دل سناؤں کسے
نہ کوئی حرف شناسا نہ ہم زبان مرا