نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشک بار اب تک
میری بے بسی پہ بھی ہے مجھے اختیار اب تک
میرے باغ دل پہ آخر یہ بہار بھی ستم ہے
جو گلاب ہم نے بوئے وہ ہیں خار دار اب تک
کوئی آس مجھ کو روکے تیری جستجو سے کافر
میں اگرچہ ہو چکا تھا کبھی شرمسار اب تک
یہ نصیب ہی نہیں تھا کہ میں اپنا حال جی لوں
میں ہوں اپنی خستگی کا خود سوگوار اب تک
جو بہائے چند قطرے جو سجائے کچھ تبسم
مجھے ایسی اک خوشی کا رہا انتظار اب تک
یہ عجیب داستان ہے میرے بے نیاز دل کی
جو اسے سمجھ نہ پایا ہے اسی سے پیار اب تک
میں کسی کے اشک پونچھوں تو وہ غم گسار میرا
یہ سمجھ کے درد ڈھویا میں نے بار بار اب تک
میں کسے کہوں اے بالغؔ میرا غم نواز تو ہے
میری بیکسی کا کس کو ہوا اعتبار اب تک

غزل
نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشک بار اب تک
عرفان احمد میر