EN हिंदी
نہ میں دریا نہ مجھ میں زعم کوئی بیکرانی کا | شیح شیری
na main dariya na mujh mein zoam koi be-karani ka

غزل

نہ میں دریا نہ مجھ میں زعم کوئی بیکرانی کا

خورشید طلب

;

نہ میں دریا نہ مجھ میں زعم کوئی بیکرانی کا
کہ میں ہوں بلبلے کی شکل میں احساس پانی کا

محبت میں تری اپنی زباں کو سی لیا میں نے
اثر زائل نہ ہو جائے تری جادو بیانی کا

عجب کیا ہے جو میری داستان خونچکاں سے بھی
کوئی پہلو نکل آئے کسی کی شادمانی کا

میں اپنے پاؤں کی زنجیر اک دن خود ہی کاٹوں گا
ہدف بننا نہیں مجھ کو کسی کی مہربانی کا

تمہارے سامنے آؤں تمہیں اپنی صفائی دوں
سبب معلوم ہو تب نا تمہاری بد گمانی کا

مرا سینہ ہزاروں چیختی روحوں کا مسکن ہے
وسیلہ ہوں میں گونگی حسرتوں کی ترجمانی کا

ہمارا عہد بھی لکھے الف لیلیٰ کے جیسا کچھ
بدلنا چاہیئے اب رنگ کچھ قصہ کہانی کا

نہیں تیرے لیے یہ دو منٹ کی چپ نہیں کافی
ترا غم مستحق ہے عمر بھی کی نوحہ خوانی کا

مری تائید میں بھی اب کسی کا ہونٹ تو کانپے
کوئی تو درد بانٹے آئے میری بے زبانی کا