EN हिंदी
نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی | شیح شیری
na mani usne ek bhi dil ki

غزل

نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی

نسیم بھرتپوری

;

نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی
دل ہی میں بات رہ گئی دل کی

گیسوئے یار میں یہ بات کہاں
اور ہی شے ہے برہمی دل کی

کھینچتے ہیں وہ تیر پہلو سے
کھوئے دیتے ہیں دل لگی دل کی

یوں وہ نکلے تڑپ کے پہلو سے
شکل آنکھوں میں پھر گئی دل کی

گھٹتی جاتی ہے ان کی مہر و وفا
بڑھتی جاتی ہے بے خودی دل کی

چھوڑ دو ان سے رسم و راہ نسیمؔ
چاہتے ہو جو بہتری دل کی