نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے
عجب نہیں یہی کیف آفریں ہو شام ابد تک
جو طاق سینہ میں اک خون کا ایاغ پڑا ہے
کبھی رلائے گی اس یار بے وفا کی تمنا
جو زندگی ہے تو صد لمحۂ فراغ پڑا ہے
یہ ایک شاخچۂ غم سے اتنے پھول جھڑے ہیں
کبھی قریب سے گزرو تو ایک باغ پڑا ہے
غزل
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
ظفر اقبال