EN हिंदी
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے | شیح شیری
na koi zaKHm laga hai na koi dagh paDa hai

غزل

نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے

ظفر اقبال

;

نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے

عجب نہیں یہی کیف آفریں ہو شام ابد تک
جو طاق سینہ میں اک خون کا ایاغ پڑا ہے

کبھی رلائے گی اس یار بے وفا کی تمنا
جو زندگی ہے تو صد لمحۂ فراغ پڑا ہے

یہ ایک شاخچۂ غم سے اتنے پھول جھڑے ہیں
کبھی قریب سے گزرو تو ایک باغ پڑا ہے