نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو
اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو
وہ موج بن کے اٹھی یاد کے سمندر سے
تباہ کر گئی تنہائی کے جزیروں کو
لرز کے ٹوٹ گئیں ہفت رنگ دیواریں
ہوا چلی تو رہائی ملی اسیروں کو
دفینے پاؤں تلے سے گزر گئے کتنے
میں دیکھتا ہی رہا ہاتھ میں لکیروں کو
غزل
نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو
عادل منصوری