EN हिंदी
نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو | شیح شیری
na koi rok saka KHwab ke safiron ko

غزل

نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو

عادل منصوری

;

نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو
اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو

وہ موج بن کے اٹھی یاد کے سمندر سے
تباہ کر گئی تنہائی کے جزیروں کو

لرز کے ٹوٹ گئیں ہفت رنگ دیواریں
ہوا چلی تو رہائی ملی اسیروں کو

دفینے پاؤں تلے سے گزر گئے کتنے
میں دیکھتا ہی رہا ہاتھ میں لکیروں کو