نہ کوئی نیلم نہ کوئی ہیرا نہ موتیوں کی بہار دیکھی
سمندروں کی تہوں میں اترا تو پتھروں کی قطار دیکھی
میں اپنے گلشن میں موسموں کے عذاب گن گن کے تھک گیا ہوں
میں کیسے کہہ دوں بہار آئی میں کیسے کہہ دوں بہار دیکھی
میں غم کا صحرا عبور کرنے کے بعد خود سے بچھڑ گیا ہوں
عجیب راہ نجات نکلی عجیب راہ فرار دیکھی
ہوا کا دامن لہو لہو تھا فضا کے اندر گھٹن گھٹن تھی
گلال مٹی میں ریت اڑتی ہوئی سر رہ گزار دیکھی
غزل
نہ کوئی نیلم نہ کوئی ہیرا نہ موتیوں کی بہار دیکھی
سورج نرائن