نہ کوئی ممنوعہ دانہ کھانا نہ خوف دل میں اتارنا تھا
جو ہم نے پہلا گنہ کیا تھا کسی کی نقلیں اتارنا تھا
جدید دنیا میں آنے والوں کی پہلی مڈبھیڑ ہم سے ہوتی
ہمارے یونٹ کا کام ان کے بدن سے مہریں اتارنا تھا
خدا نہ ہوتا تو کاروان جہاں میں اپنی جگہ نہ بنتی
کہ ان دنوں میں ہمارا پیشہ سفر میں نظریں اتارنا تھا
ہم ایسے لفظوں کے کاریگر تھے کہ منڈیوں میں ہمارا ٹھیکا
شعور کوزہ گری کی خاطر ورق پہ شکلیں اتارنا تھا
ہمارے لوگوں نے باہمی مشورے سے مل کر بجھا دیے تھے
وہ دیپ جن کے حسب نسب میں زمیں پہ صبحیں اتارنا تھا
ہماری گھڑیوں پہ شام ہونے میں پانچ بجنے میں دن پڑے تھے
سو ہم کو چھٹی سے پہلے خود کو کسی لحد میں اتارنا تھا
کسی کے لہجے کی چاٹ ایسی لگی کہ اپنا شعار آرشؔ
مکالمے کے جنوں میں خود پر اداس نظمیں اتارنا تھا
غزل
نہ کوئی ممنوعہ دانہ کھانا نہ خوف دل میں اتارنا تھا
سرفراز آرش