EN हिंदी
نہ کوئی غیر نہ اپنا دکھائی دیتا ہے | شیح شیری
na koi ghair na apna dikhai deta hai

غزل

نہ کوئی غیر نہ اپنا دکھائی دیتا ہے

اقبال منہاس

;

نہ کوئی غیر نہ اپنا دکھائی دیتا ہے
ہر آدمی مجھے تجھ سا دکھائی دیتا ہے

روش روش ترے قدموں کے نقش ملتے ہیں
گلی گلی ترا چہرا دکھائی دیتا ہے

شب فراق کی تاریکیوں کا حال نہ پوچھ
چراغ ماہ بھی اندھا دکھائی دیتا ہے

عجیب رنگ بہاراں ہے اب کے گلشن میں
نہ کوئی پھول نہ غنچہ دکھائی دیتا ہے

اتر کے دیکھ ذرا پیار کے سمندر میں
کہ موج موج میں رستہ دکھائی دیتا ہے

کہاں کہاں پہ جلاؤں دل و نظر کے چراغ
ہر ایک گھر میں اندھیرا دکھائی دیتا ہے

اسی کا زہر ہے ہاتھوں میں آج تک اقبالؔ
وہ ایک پھول جو پیارا دکھائی دیتا ہے