نہ کوئی دوست نہ دشمن عجیب دنیا ہے
یہ زندگی ہے کہ تنہائیوں کا صحرا ہے
بدلتے رہتے ہیں ہر موڑ پر سفر کے رفیق
غم حیات مگر ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ شہر درد ہے لوگوں سنبھل سنبھل کے چلو
ہر ایک ذرہ میں آباد دل کی دنیا ہے
بنائے گا یہ نیا آسمان فکر و نظر
غبار راہ جو پامال ہو کے اٹھا ہے
جو دیکھیے تو بگولہ ہے ریگ آوارہ
جو سوچئے تو یہی آبروئے صحرا ہے
کچھ آج رنگ ہے میلا فضا کے آنچل کا
ضرور آدم خاکی ادھر سے گزرا ہے
سروشؔ وادئ غربت سے بے خبر گزرو
تمہارے ساتھ محبت کا نرم سایہ ہے

غزل
نہ کوئی دوست نہ دشمن عجیب دنیا ہے
رفعت سروش