EN हिंदी
نہ کوئی دوست نہ دشمن عجیب دنیا ہے | شیح شیری
na koi dost na dushman ajib duniya hai

غزل

نہ کوئی دوست نہ دشمن عجیب دنیا ہے

رفعت سروش

;

نہ کوئی دوست نہ دشمن عجیب دنیا ہے
یہ زندگی ہے کہ تنہائیوں کا صحرا ہے

بدلتے رہتے ہیں ہر موڑ پر سفر کے رفیق
غم حیات مگر ساتھ ساتھ چلتا ہے

یہ شہر درد ہے لوگوں سنبھل سنبھل کے چلو
ہر ایک ذرہ میں آباد دل کی دنیا ہے

بنائے گا یہ نیا آسمان فکر و نظر
غبار راہ جو پامال ہو کے اٹھا ہے

جو دیکھیے تو بگولہ ہے ریگ‌ آوارہ
جو سوچئے تو یہی آبروئے صحرا ہے

کچھ آج رنگ ہے میلا فضا کے آنچل کا
ضرور آدم خاکی ادھر سے گزرا ہے

سروشؔ وادئ غربت سے بے خبر گزرو
تمہارے ساتھ محبت کا نرم سایہ ہے