نہ کوئی دین ہوتا ہے نہ کوئی ذات ہوتی ہے
محبت کرنے والوں کی نرالی بات ہوتی ہے
بساط زیست پر ہم چال چلتے ہیں قرینے سے
ذرا سی چوک ہو جائے تو بازی مات ہوتی ہے
حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں لوگ محفل میں
غریبوں کی بھلا دنیا میں کیا اوقات ہوتی ہے
بزرگوں کی دعائیں ہیں جو سر جھکنے نہیں دیتیں
خوشی اور غم وگرنہ کس کے بس کی بات ہوتی ہے
اور ان سے یہ معمہ آج تک حل ہو نہیں پایا
کہ دن آتا ہے پہلے یا کہ پہلے رات ہوتی ہے
کسی نے سچ کہا ہے اک تماشا گاہ ہے دنیا
کھلونوں کی مگر چابی خدا کے ہات ہوتی ہے
خزاں کا دور ہو یا وہ بہاروں کا زمانہ ہو
کوئی موسم ہو اے گلشنؔ ہماری بات ہوتی ہے
غزل
نہ کوئی دین ہوتا ہے نہ کوئی ذات ہوتی ہے
گلشن بریلوی