نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
اور اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے
اس آغاز محبت ہی میں پورے ہو گئے ہم تو
اسے اب اور کیا شرمندۂ انجام کرنا ہے
بہت بے سود ہے لیکن ابھی کچھ اور دن مجھ کو
سواد صبح میں رہ کر شمار شام کرنا ہے
نشاں دینا ہے میں نے کچھ غبار آلود سمتوں کا
کوئی کافی پرانا راز طشت از بام کرنا ہے
بدی کے طور پر کرنی ہے نیکی بھی محبت میں
کہ جو بھی کام کرنا ہے وہ بے ہنگام کرنا ہے
ابھی تو کار خیر اتنا پڑا ہے سامنے میرے
ابھی تو میں نے ہر خاص آدمی کو عام کرنا ہے
کوئی بدلہ چکانا ہے وفا کے نام پر اس سے
مسافت کے لیے اٹھنا ہے اور بسرام کرنا ہے
کمائی عمر بھر کی ہے یہی اک جائداد اپنی
سو یہ خواب تماشا اب کسی کے نام کرنا ہے
اک آغاز سفر ہے اے ظفرؔ یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے
غزل
نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
ظفر اقبال