EN हिंदी
نہ کوئی اپنا غم ہے اور نہ اب کوئی خوشی اپنی | شیح شیری
na koi apna gham hai aur na ab koi KHushi apni

غزل

نہ کوئی اپنا غم ہے اور نہ اب کوئی خوشی اپنی

شمس فرخ آبادی

;

نہ کوئی اپنا غم ہے اور نہ اب کوئی خوشی اپنی
تمہیں کہہ دو کہ ہم کیسے گزاریں زندگی اپنی

فریب ہم سفر ہے اور راہ غم کا سناٹا
مناسب ہے کہ خود ہو اے جنوں اب رہبری اپنی

اجالا محفلوں میں کر کے بھی آنسو ہی ہاتھ آئے
نہ راس آئی کبھی خود شمع کو بھی روشنی اپنی

گزارش ہے کہ اے معبود مجھ کو ضبط غم دے دے
نہ کر دے فاش راز آرزو کو بیکسی اپنی

تڑپ جائے گا ہر دل شمسؔ کا جب نام آئے گا
نمایاں یوں بھی ہوگی داستان غم کبھی اپنی