EN हिंदी
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے | شیح شیری
na kisi pe zaKHm ayan koi na kisi ko fikr rafu ki hai

غزل

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

فیض احمد فیض

;

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے

صف زاہداں ہے تو بے یقیں صف مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا نہ ستم نیا کہ تری جفا کا گلا کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کف باغباں پہ بہار گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں خوف روز سیہ ہمیں کہ ہے فیضؔ ظرف نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن جو لگن اس آئینہ رو کی ہے