نہ کر پائے دشمن بھی جو دشمنی میں
کیا ہے رفیقوں نے وہ دوستی میں
بزرگوں سے پایا ہے یہ راز ہم نے
ہے جینے کی لذت فقط سادگی میں
عبث ہے عبادت عبث اس کا تقویٰ
اگر آدمیت نہیں آدمی میں
فلک تک اگر تو گیا بھی تو کیا ہے
بہت فاصلہ ہے ابھی آگہی میں
زمانے کو اب کوئی کیسے بتائے
بڑی تیرگی ہے نئی روشنی میں
بہادر مرا ایک ہی بار لاغرؔ
کئی بار بزدل مرا زندگی میں

غزل
نہ کر پائے دشمن بھی جو دشمنی میں
اوم پرکاش لاغر