EN हिंदी
نہ کارواں کا ہمارے کوئی نشان رہا | شیح شیری
na karwan ka hamare koi nishan raha

غزل

نہ کارواں کا ہمارے کوئی نشان رہا

محمد عابد علی عابد

;

نہ کارواں کا ہمارے کوئی نشان رہا
نہ ہم سفر نہ ہی کشتی نہ بادبان رہا

زمین اپنی طرف کھینچتی رہی مجھ کو
سوار سر پہ سدا میرے آسمان رہا

مجھے خبر تھی گیا تھا تو غیر سے ملنے
میں جان بوجھ کے محفل میں بے زبان رہا

تمام عمر مسلط رہا وہ دل پہ مرے
تمام عمر میں ظالم کا میزبان رہا

ہوا نہ قید زمان و مکاں سے میں آزاد
زمیں سے دور مگر زیر آسمان رہا

شریک وہ بھی تھا میرے خلاف سازش میں
کہ جس کے ساتھ سدا میرا کھان پان رہا

نہ دل میں جلتی ہوئی آگ بجھ سکی عابدؔ
نہ سر پہ میرے کبھی کوئی سائبان رہا