نہ کام آئی مرے کچھ مری شرافت بھی
مرے خلاف ہوئی اس کے ساتھ خلقت بھی
وہ شخص یوں تھا کہ جیسے دھلا دھلایا ہوا
تھی ختم اس پہ ہر اک طرح کی نفاست بھی
وہ جامہ زیب تھا اتنا کہ تکتے ہی رہیے
یہ دل تو چاہتا تھا مستقل رفاقت بھی
بلا سبب نہ تھا اس میں وفور خود بینی
غرور حسن کے ہم راہ تھی نزاکت بھی
تھا اس کا چہرۂ زیبا کہ ماہ پارہ کوئی
سکون بخش تھی اس کی مجھے تمازت بھی
برت نہ سکتا تھا کھل کر وہ التفات مگر
تھی اس کی چشم فسوں ساز میں مروت بھی
میں اس کے سامنے گم سم رہا سخن بستہ
نہ کر سکا کبھی عرض ہنر کی جرأت بھی
میں کارگاہ جہاں میں ازل سے ہوں تنہا
نہ راس آئی مجھے مہوشوں کی قربت بھی
ہجوم شوق میں یوں بھی ہوا کہ میں ناصرؔ
حواس گم کیے بھولے رہا ذہانت بھی
غزل
نہ کام آئی مرے کچھ مری شرافت بھی
ناصر چودھری