نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے
اجالے ہاتھ ملانے لگے اندھیرے سے
شجر کے حصے میں بس رہ گئی ہے تنہائی
ہر اک پرندہ روانہ ہوا بسیرے سے
جو اس کی بین کی دھن پر ہوا ہے رقص انداز
ٹھنی رہی ہے اسی سانپ کی سپیرے سے
ابھی یہ روشنی چبھتی ہوئی ہے آنکھوں میں
ابھی ہم اٹھ کے چلے آئے ہیں اندھیرے سے
تمہارا شہر نگاراں تو خوب ہے اظہرؔ
بچا کے لائے ہیں دل آرزو کے گھیرے سے
غزل
نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے
اظہر نواز