نہ جانے ربط مسرت ہے کس قدر غم سے
خبر خوشی کو ملی بھی تو چشم پر نم سے
زبان کھولیے خلوت میں بے حجابانہ
چھپائی جاتی ہے کب دل کی بات محرم سے
کسی کی یاد میں کیا کیا نہ ہم پہ بیت گئی
جہاں نے دی تھی جو فرصت ذرا ہمیں غم سے
شعور شانہ کشی دیکھیے انہیں کب آئے
مزاج زیست ہے وابستہ زلف برہم سے
فریب دوست نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
یہی تو رسم چلی آ رہی ہے آدم سے
یہ آج کون سی تقصیر ہو گئی نامیؔ
کہ دوست بھی تو ملاتے نہیں نظر ہم سے
غزل
نہ جانے ربط مسرت ہے کس قدر غم سے
عابد نامی