نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا
وہ اپنے حق میں ہی سارے اصول جنگ بدلے گا
خلا میں تیرتے مسکن رہائش کے لیے ہوں گے
یہ مستقبل مرا تہذیب خشت و سنگ بدلے گا
در و دیوار کیا جانیں کھلا پن آسمانوں کا
کشادہ دل وہی ہوگا جو ذہن تنگ بدلے گا
بڑھائے گا وہ اپنے قد کو بانسوں پر کھڑے ہو کر
کبھی تاریخ بدلے گا کبھی فرہنگ بدلے گا
امیر شہر نے ہم کو سگان شہر سمجھا ہے
وہ اپنا کام روکے گا نہ اپنا ڈھنگ بدلے گا
بہت چھوٹا سہی یہ دل مگر انجمؔ یہ ممکن ہے
توازن عشق کا اب تو یہی پاسنگ بدلے گا
غزل
نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا
فاروق انجم