نہ جانے کون سا رشتہ ہے مجھ سے ناتا ہے
مری غزل کو وہ تنہائیوں میں گاتا ہے
دریچے میں نے مقفل تو کر لئے لیکن
وہ خوشبوؤں کی طرح گھر میں آتا جاتا ہے
میں اس کے واسطے مشکل سا اک سبق ٹھہرا
وہ مجھ کو یاد تو کرتا ہے بھول جاتا ہے
وہ ایک لمس کہ اب تک نہ بھول پایا میں
نہ جانے کیسے کسی کو کوئی بھلاتا ہے
نسیمؔ جس سے تعلق تھا چند لمحوں کا
وہ بن کے یاد گزشتہ مجھے ستاتا ہے

غزل
نہ جانے کون سا رشتہ ہے مجھ سے ناتا ہے
نسیم احمد نسیم