EN हिंदी
نہ جانے کب سے میں گرد سفر کی قید میں تھا | شیح شیری
na jaane kab se main gard-e-safar ki qaid mein tha

غزل

نہ جانے کب سے میں گرد سفر کی قید میں تھا

رونق رضا

;

نہ جانے کب سے میں گرد سفر کی قید میں تھا
کہ سنگ میل تھا اور رہگزر کی قید میں تھا

دکھائی دیتا تھا مختار دست و بازو سے
مگر وہ شخص کسی بے ہنر کی قید میں تھا

میں خواب خواب تھا ہر جشن آرزو کا اسیر
کھلی جو آنکھ تو اپنے ہی گھر کی قید میں تھا

کھلی فضائیں ملیں جب تو اے ہوائے چمن
میں بے بضاعتیٔ بال و پر کی قید میں تھا

میں خوش ہوں یوں کہ ابھی تک تری نظر میں نہیں
وہ اشک خوں جو مری چشم تر کی قید میں تھا

نہ کر سکا کسی منزل کا احترام کہ میں
جنون شوق کا مارا سفر کی قید میں تھا

میں اڑ رہا تھا فضاؤں کی وسعتوں میں مگر
مرا وجود ابھی بام و در کی قید میں تھا

کیا تھا رات تصور میں جس نے قصد فرار
وہ صبح پا بہ گرفتہ سحر کی قید میں تھا