نہ ہوتی حال دل کہنے کی گر ہمت تو اچھا تھا
نہ سنتے کاش وہ شرح غم الفت تو اچھا تھا
مری بیتابیٔ دل بڑھ گئی ہے الاماں کتنی
نکلتی گر نہ شوق دید کی حسرت تو اچھا تھا
وہ راحت بیزیاں ثابت ہوئی کتنی حباب آسا
کبھی ہوتا نہ اتمام شب فرقت تو اچھا تھا
ہوا کیوں التفات ان کا بڑھا کیوں حوصلہ میرا
نہاں پھولوں میں رہتی آہ گر نکہت تو اچھا تھا
تمنا ہے فزوں ہوں شورشیں جذب محبت کی
دل مضطر کی بڑھتی اور بھی وحشت تو اچھا تھا
رہیں غم کی شرر انگیزیاں یارب قیامت تک
حیاؔ غم سے نہ ملتی گر کبھی فرصت تو اچھا تھا

غزل
نہ ہوتی حال دل کہنے کی گر ہمت تو اچھا تھا
حیا لکھنوی