نہ ہو مرضی خدا کی تو کسی سے کچھ نہیں ہوتا
جو چاہے آدمی تو آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
کہاں کے دوست کیسے اقربا جب وقت پڑتا ہے
مصیبت میں کسی کی دوستی سے کچھ نہیں ہوتا
عمل کی زندگانی در حقیقت زندگانی ہے
جئے جاؤ تو خالی زندگی سے کچھ نہیں ہوتا
اجل آئے گی جاں جائے گی اک ساعت معین پر
عزیز و اقربا کی پیروی سے کچھ نہیں ہوتا
ادب کے قدرداں بزم ادب سے اٹھتے جاتے ہیں
لو رکھو شاعری اب شاعری سے کچھ نہیں ہوتا
مری حالت یہ کچھ مخصوص دل بے چین ہیں لیکن
یہ مشکل ہے کسی کی بیکلی سے کچھ نہیں ہوتا
سفیرؔ اس زندگی میں وقت بھی تیور بدلتا
نہ گھبراؤ کسی کی دشمنی سے کچھ نہیں ہوتا

غزل
نہ ہو مرضی خدا کی تو کسی سے کچھ نہیں ہوتا
محمد عباس سفیر