EN हिंदी
نہ ہو مرضی خدا کی تو کسی سے کچھ نہیں ہوتا | شیح شیری
na ho marzi KHuda ki to kisi se kuchh nahin hota

غزل

نہ ہو مرضی خدا کی تو کسی سے کچھ نہیں ہوتا

محمد عباس سفیر

;

نہ ہو مرضی خدا کی تو کسی سے کچھ نہیں ہوتا
جو چاہے آدمی تو آدمی سے کچھ نہیں ہوتا

کہاں کے دوست کیسے اقربا جب وقت پڑتا ہے
مصیبت میں کسی کی دوستی سے کچھ نہیں ہوتا

عمل کی زندگانی در حقیقت زندگانی ہے
جئے جاؤ تو خالی زندگی سے کچھ نہیں ہوتا

اجل آئے گی جاں جائے گی اک ساعت معین پر
عزیز و اقربا کی پیروی سے کچھ نہیں ہوتا

ادب کے قدرداں بزم ادب سے اٹھتے جاتے ہیں
لو رکھو شاعری اب شاعری سے کچھ نہیں ہوتا

مری حالت یہ کچھ مخصوص دل بے چین ہیں لیکن
یہ مشکل ہے کسی کی بیکلی سے کچھ نہیں ہوتا

سفیرؔ اس زندگی میں وقت بھی تیور بدلتا
نہ گھبراؤ کسی کی دشمنی سے کچھ نہیں ہوتا