نہ ہو جو ان کی طبیعت وفا شعار نہیں
ہمیں تو تلخیٔ دوراں بھی ناگوار نہیں
یہ ظرف ظرف کی باتیں ہیں اس کا کیا شکوہ
ہے شکر آپ کی نظروں میں شرمسار نہیں
ہمیں نے خون سے سینچا ہے غنچہ و گل کو
بہار کہتے ہیں جس کو وہ یہ بہار نہیں
نظر نظر ہے فسانہ نفس نفس شکوہ
ہجوم یاس میں شرمندۂ بہار نہیں
خزاں رسیدہ بہاروں کا ذکر کیا ہو کلیمؔ
ہمیں تو کچھ بھی محبت میں سازگار نہیں
غزل
نہ ہو جو ان کی طبیعت وفا شعار نہیں
کلیم سہسرامی