نہ ہو حیات کا حاصل تو بندگی کیا ہے
جو بے نیاز ہو سجدوں سے زندگی کیا ہے
سدا بہار چمن میں بھی گر نشیمن ہو
ترے بغیر جو گزرے وہ زندگی کیا ہے
خدا کو مان کے خود کو خدا سمجھتا ہے
انا پرستی سراسر ہے بندگی کیا ہے
بس ہم کمال سمجھتے ہے جیتے رہنے کو
یہ کربلا نے بتایا کہ زندگی کیا ہے
وہ جو فقیر صفت خود کو کہتا پھرتا ہے
قبا حریر کی پہنے ہے سادگی کیا ہے
غزل
نہ ہو حیات کا حاصل تو بندگی کیا ہے
عابد کاظمی