نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا
راستہ کوئی کھلا ہم نے نہیں رہنے دیا
اس نے ٹکڑوں میں بکھیرا ہوا تھا مجھ کو جہاں
جا اٹھایا ہے کہیں سے تو کہیں رہنے دیا
سج رہے تھے یہ شب و روز کچھ ایسے تجھ سے
ہم کو دنیا ہی پسند آ گئی دیں رہنے دیا
خود تو باغی ہوئے ہم تجھ سے مگر ساتھ ہی ساتھ
دل رسوا کو ترے زیر نگیں رہنے دیا
جا بجا اس میں بھی تیرے ہی نشاں تھے شامل
ہم نے اک نقش اگر اپنے تئیں رہنے دیا
اک خبر تھی جسے ظاہر نہ کیا ہم نے کبھی
اک خزانہ تھا جسے زیر زمیں رہنے دیا
خود تو باہر ہوئے ہم خانۂ دل سے لیکن
وہ کسی خواب میں تھا اس کو یہیں رہنے دیا
آسماں سے کبھی ہم نے بھی اتارا نہ اسے
اور اس نے بھی ہمیں خاک نشیں رہنے دیا
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی اس کو وہیں رہنے دیا
غزل
نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا
ظفر اقبال