نہ گھر ہے کوئی نہ سامان کچھ رہا باقی
نہیں ہے کوئی بھی دنیا میں سلسلہ باقی
یہ کھیل ختم کرو اقتدار کا یہ کھیل
کہ ہے قریب اجل کے ترا گلا باقی
مقام عبرت فانی سے کون ہے محفوظ
کہ کون حاکم اسباب رہ گیا باقی
سکوت مرگ کے رستہ پہ کچھ نہیں تھا مگر
کوئی چلا ہی کہاں تھا کہ کب رکا باقی
یہ کیسا عالم ویران ہے نظر سے پرے
نہ دن بچا ہے نہ ہی رات کا سرا باقی
بہت نہ تھوڑا سر عام زندگی کا شور
کہ درمیان ہی سنتے ہیں اک صدا باقی
غزل
نہ گھر ہے کوئی نہ سامان کچھ رہا باقی
احمد ہمیش